14

انسانی حقوق کمیشن کا مورو احتجاجی واقعے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ

لاہور(پریس رلیز) انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے ضلع نوشہرو فیروز، سندھ کے علاقے مورو می 20 مئی کو پیش آنے والے احتجاجی واقعات کی فوری اور آزاد عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان ہونے والے تصادم کے نتیجے میں دو قومپرست کارکنان کی ہلاکت سمیت دونوں اطراف کے متعدد افراد زخمی ہوئے،  وزیر داخلہ کے گھر سمیت کئی گاڑیاں نذر آتش کر دی گئیں۔ 

لاہور سے جاری کردہ پریس رلیز کے مطابق ایچ آر سی پی کی حقائق معلوم کرنے والی ٹیم نے مورو کا دورہ کیا، جہاں دریائے سندھ سے نہریں بنانے اور کارپوریٹ فارمنگ کے لیے زمین الاٹ کیے جانے کے خلاف قومی شاہراہ پر مظاہرے ہوئے تھے۔ مقامی شہریوں کے بیانات کے مطابق، ہاری مزدور اتحاد سمیت مقامی افراد کی قیادت میں یہ احتجاج پرامن تھا، لیکن پولیس نے تشدد کا راستہ اپنایا۔ ایک مظاہرے کرنے والا عرفان لغاری شدید زخمی ہوا اور بعد میں حیدرآباد کے ہسپتال میں انتقال کر گیا۔ اس کے خاندان کا کہنا ہے کہ وہ کسی قوم پرست گروپ سے وابستہ نہیں تھا اور پرامن طریقے سے احتجاج کر رہا تھا۔ 

تصادم کے فوراً بعد، صوبائی وزیر داخلہ کے گھر “لنجار ہاؤس” کو آگ لگا دی گئی۔ زاہد لغاری کے خاندان کا دعویٰ ہے کہ گھر کی حفاظت پر مامور مسلح افراد نے فائرنگ کی، جس میں زاہد، جو احتجاج میں شامل نہیں تھا بلکہ ذاتی کام سے وہاں موجود تھا، سر میں گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا۔ وہ 27 سال کا تھا اور اس کی بیوی پہلے بچے کی امید سے ہے۔ 

ایچ آر سی پی کی ٹیم نے گوٹھ بجرانی لغاری کا دورہ کیا، جہاں متوفی کے خاندان، مقامی صحافیوں اور اساتذہ سے بیانات لیے گئے۔ ٹیم نے مورو پولیس اسٹیشن پر افسران سے ملنے کی کوشش کی، لیکن اسٹیشن ہاؤس آفیسر نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا، جبکہ سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) سے رابطہ نہیں ہو سکا کیونکہ موبائل سروسز معطل تھیں۔ لنجار ہاؤس پر بھی کسی نے ٹیم سے ملنے سے انکار کر دیا۔ 

بیان کے مطابق ایچ آر سی پی کی ٹیم کو بتایا گیا کہ 400 سے زائد افراد پر جھوٹے فوجداری اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے ہیں، جبکہ درجنوں سیاسی کارکنوں سمیت افراد کو گرفتار کیا گیا ہے یا وہ لاپتہ ہیں۔ کئی مقدمات شکارپور اور میرپورخاص جیسے دور دراز اضلاع میں درج کیے گئے ہیں۔ لنجار ہاؤس میں آتش زنی کے مقدمے میں اپوزیشن کے سرکردہ رہنماؤں کو نامزد کیا گیا ہے۔ 20 مئی کے بعد سے علاقے میں موبائل سروسز معطل ہیں اور پولیس کی بھاری موجودگی نے خوف کا ماحول بنا رکھا ہے۔ 

پریس رلیز کے مطابق ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چئیرمین اسد اقبال بٹ نے کہا ہے کہ، چونکہ یہ واقعہ صوبائی وزیر داخلہ کے حلقے میں پیش آیا ہے اور سیاسی مخالفین کو مقدمات میں نامزد کیا گیا ہے، ایچ آر سی پی کو سندھ پولیس کی تحقیقات پر اعتماد نہیں ہے۔ لہٰذا، ہم سندھ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ حقائق سامنے لانے، ذمہ داروں کو سزا دلوانے اور متاثرہ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے فوری طور پر آزاد عدالتی تحقیقات کا اعلان کرے۔ 

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں