دی ہیگ (رائٹرز) اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت، عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے کہا ہے کہ وہ ممالک جو ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے میں ناکام رہتے ہیں، انہیں بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا جا سکتا ہے اور انہیں موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کو معاوضہ ادا کرنا ہوگا۔
آئی سی جے نے اپنے مشاورتی فیصلے (advisory opinion) میں کہا کہ دنیا کو درپیش موسمیاتی بحران ایک “فوری اور وجودی خطرہ” ہے، اور یہ کہ تمام ممالک خاص طور پر ترقی یافتہ اقوام، اس بحران سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اور اجتماعی اقدامات کے پابند ہیں۔
‘ریاستوں پر سخت ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں’
جج یوجی ایواساوا، جنہوں نے عدالت کی 15 رکنی پینل کی صدارت کی، اپنے فیصلے میں کہا:
“ریاستوں پر لازم ہے کہ وہ بین الاقوامی معاہدوں کے تحت سخت ماحولیاتی اہداف حاصل کریں۔ اس میں ناکامی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔”
عدالت نے واضح کیا کہ ممالک نہ صرف اپنی سرگرمیوں کے ذمہ دار ہیں، بلکہ ان کے زیرِ اثر کمپنیوں کی جانب سے ہونے والی آلودگی پر بھی جوابدہ ہیں۔
معاوضے کی شکل کیا ہو سکتی ہے؟
عدالت کے مطابق اگر کوئی ملک موسمیاتی تباہی کا باعث بنتا ہے، تو متاثرہ ریاست کو ’ریسٹی ٹیوشن‘ (یعنی نقصانات کی تلافی)، مالی معاوضہ اور تسلی فراہم کرنا قانونی طور پر لازم ہو سکتا ہے — بشرطیکہ بین الاقوامی قانون کے تقاضے پورے ہوں۔
چھوٹے جزیرہ ممالک کی بڑی جیت
یہ مقدمہ جنوبی بحرالکاہل کے ملک وانوآتو کی درخواست پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عدالت کو بھیجا تھا۔ وانوآتو کے وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی رالف ریگن وانو نے فیصلے کے بعد کہا:
“میں نے توقع نہیں کی تھی کہ فیصلہ اتنا مضبوط اور واضح ہوگا۔”
اسی کیس پر کام کرنے والے ایک قانون کے طالبعلم، وشال پرساد نے اسے “موسمیاتی انصاف کے لیے ایک طاقتور قانونی ہتھیار” قرار دیا۔
صاف ماحول ایک انسانی حق
عدالت نے پہلی بار واضح طور پر کہا ہے کہ صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول ایک بنیادی انسانی حق ہے۔ جج ایواساوا نے کہا کہ پیرس معاہدے کے اہداف کو پورا کرنا ناگزیر ہے اور تمام قومی منصوبے اس کے مطابق ترتیب دیے جانے چاہییں۔
امریکہ کی غیرحاضری، مگر اثر برقرار
اگرچہ یہ رائے قانونی طور پر لازمی نہیں، مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی قانونی اور سیاسی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
قانونی ماہر اور ماحولیات پر کام کرنے والے وکیل ہرج نرولا کے مطابق:
“یہ فیصلہ مستقبل میں بڑے آلودگی پھیلانے والے ممالک کے خلاف ہرجانے کے مقدمات کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔”
امریکہ، جو تاریخی طور پر سب سے زیادہ کاربن گیسیں خارج کرنے والا ملک رہا ہے، اس کیس میں شریک نہیں تھا، کیونکہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں بیشتر ماحولیاتی اقدامات واپس لے لیے گئے تھے۔
پس منظر اور اگلا قدم؟
اقوام متحدہ کے مطابق، موجودہ پالیسیوں کے تسلسل کی صورت میں سنہ 2100 تک عالمی درجہ حرارت صنعتی دور سے 3 ڈگری زیادہ ہو سکتا ہے۔
اس پس منظر میں، چھوٹے جزیرہ ممالک اور ترقی پذیر ریاستیں برسوں سے مطالبہ کر رہی تھیں کہ عالمی عدالت موسمیاتی انصاف پر کوئی واضح رہنمائی دے۔
اب جب کہ عدالت نے ایک واضح اور مضبوط مؤقف اختیار کیا ہے، تو یہ دیکھنا باقی ہے کہ عالمی طاقتیں — خصوصاً ترقی یافتہ اور صنعتی ممالک — اس فیصلے پر عمل کرتے ہیں یا نظر انداز کرتے ہیں۔