مہاجر کلچر ڈے: لسانی سیاست اور مصنوعی شناخت کا المیہ

خالق تھہیم

سندھ کی دھرتی ہمیشہ سے مختلف زبانوں، ثقافتوں اور قوموں کے لیے جائے پناہ رہی ہے۔ اس سرزمین نے جو بھی آیا، اسے دشمن نہیں بلکہ مہمان سمجھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں صدیوں سے تہذیبی تنوع موجود رہا، مگر اس تنوع کے ساتھ ایک بنیادی اصول ہمیشہ قائم رہا، انضمام۔ مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں انضمام کے بجائے انکار، اور احترام کے بجائے نفرت کو بنیاد بنایا جائے۔

ہر ثقافت قابل احترام ہے، خواہ وہ کسی بھی کمیونٹی کی ہو۔ لیکن احترام یکطرفہ نہیں ہوتا۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی گروہ سندھ میں رہتے ہوئے سندھ کی ثقافت، زبان، اجرک، ٹوپی اور دھرتی سے نفرت کرے اور پھر اسی نفرت کو بنیاد بنا کر کلچر ڈے منائے۔ ثقافت اظہار کا نام ہے، ردعمل اور کاؤنٹر بیانیہ بنانے کا ہتھیار نہیں۔

مہاجر ہونے کا تصور بنیادی طور پر ایک عارضی کیفیت ہے، مستقل شناخت نہیں۔ تاریخ، سماجیات اور مذہبی روایت، تینوں اس بات پر متفق ہیں کہ ہجرت کے بعد اصل عمل انضمام کا ہوتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں بھی ہجرت کے بعد نئی شناخت بھائی چارے اور مقامی معاشرے میں گھلنے ملنے سے بنی، نہ کہ الگ قوم یا مستقل مہاجر ہونے کے دعوے سے۔ دنیا کی کسی بھی سوسائٹی میں تیسری نسل خود کو مہاجر نہیں کہلاتی۔ یہ فطرت کے خلاف ہے۔

1947 میں جو لوگ سندھ آئے، وہ مہمان تھے۔ سندھ نے انہیں قبول کیا، عزت دی، رہائش دی، زمین دی، مواقع دیے۔ اس کے باوجود آج تیسری نسل کا خود کو مسلسل مہاجر کہنا ایک فطری سماجی عمل کی نفی ہے۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ “متروکہ سندھ” یا سندھ کے چالیس فیصد پر حق جیسے دعوے کیے جائیں۔ نہ تاریخ میں اس کی کوئی بنیاد ہے، نہ قانون میں۔ متروکہ املاک ریاست کی ملکیت تھیں، کسی مخصوص گروہ کی نہیں، اور یہ قانونی تصور بھی دہائیوں پہلے ختم ہو چکا۔

کراچی کی تعمیر کسی ایک کمیونٹی کا کارنامہ نہیں۔ اس شہر کو سندھیوں، پارسیوں، ہندوؤں اور دیگر مقامی آبادی نے مل کر بنایا۔ پارسیوں کی مثال ہمارے سامنے ہے جو ہجرت کے بعد مکمل طور پر مقامی معاشرے میں ضم ہو گئے، نہ انہوں نے الگ وطن مانگا، نہ ثقافت کو ہتھیار بنایا۔ دنیا کی تاریخ ایسی ہی مثالوں سے بھری پڑی ہے، جہاں آنے والے مقامی شناخت کا حصہ بنے اور ترقی میں شریک ہوئے۔

اصل مسئلہ شناخت کا نہیں، سیاست کا ہے۔ لسانی سیاست نے اردو اسپیکنگ آبادی کے ایک حصے کو خود ساختہ مجبوری میں قید رکھا۔ خوف، احساسِ برتری اور محرومی کو بیچ کر سیاسی مفادات حاصل کیے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک کمیونٹی جو سندھ کا فطری حصہ بن سکتی تھی، اسے مصنوعی طور پر الگ رکھا گیا۔ حالانکہ سندھ کا اجتماعی رویہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ یہاں رہنے والا ہر شخص سندھی ہے، چاہے اس کی زبان کچھ بھی ہو۔

قوم بننے کے لیے چار چیزیں ضروری ہوتی ہیں، تاریخ، دھرتی، زبان اور مشترکہ ثقافت۔ مہاجر ایک کمیونٹی ہو سکتی ہے، مگر قوم نہیں۔ کمیونٹی کا مطلب سفر کی حالت ہے، جبکہ قوم کا مطلب دھرتی سے جڑ جانا۔ یہ دونوں تصورات ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ اگر انضمام سے انکار کیا جائے گا تو شناخت کا بحران نسل در نسل منتقل ہوتا رہے گا۔

درخت کی پہچان اس کی جڑوں سے ہوتی ہے۔ بیج کہیں سے بھی آ سکتا ہے، مگر جڑیں اسی مٹی میں مضبوط ہوتی ہیں جہاں وہ پھیلتی ہیں۔ سندھ میں پیدا ہونے والی نسل اگر اس مٹی کو ماننے سے انکار کرے گی تو وہ مضبوط شناخت قائم نہیں کر سکے گی۔ حل نفرت، انکار اور علیحدگی میں نہیں، بلکہ انضمام، قبولیت اور مشترکہ مستقبل کی تعمیر میں ہے۔ یہی تاریخ کا سبق ہے، اور یہی سندھ کی روایت۔

اپنا تبصرہ لکھیں