’’سندھ فالج زدہ ہو چکا ہے، سماجی تبدیلی کیلئے منظم سیاسی کردار ناگزیر ہے‘‘ سکھر میں سول سوسائٹی کانفرنس

سکھر (رپورٹ: دانش راجپوت)سول سوسائٹی تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم بھٹ شاہ ڈیکلریشن کوآرڈینیشن کونسل کی 34ویں سالگرہ کے موقع پر جمعرات کو آرٹس کونسل سکھر میں ’’سندھ کے موجودہ مسائل اور سول سوسائٹی کا کردار‘‘ کے موضوع پر سالانہ کانفرنس منعقد کی گئی، جس میں صحافیوں، سماجی رہنماؤں، خواتین نمائندوں اور سیاسی کارکنوں نے سندھ کو درپیش سیاسی، سماجی اور معاشی بحران پر کھل کر گفتگو کی۔


کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھٹ شاہ ڈیکلریشن کوآرڈینیشن کونسل کے سربراہ علی حسن مہر نے کہا کہ 1993 میں دو سو سے زائد سماجی تنظیموں کو یکجا کر کے کونسل قائم کی گئی تاکہ اجتماعی طور پر سماجی فلاح، انسانی حقوق اور عوامی آگہی کے لیے جدوجہد کی جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’معاشرہ اس وقت فالج زدہ ہو چکا ہے، نوجوان بیروزگاری، غربت اور ناانصافی سے تنگ آ کر خودکشی جیسے انتہائی قدم اٹھا رہے ہیں، جو ریاست اور سماج دونوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔‘‘

سکھر نیشنل پریس کلب کے صدر تاج رند نے کہا کہ سول سوسائٹی ایک طرف نظام کی تبدیلی کی بات کرتی ہے، لیکن انتخابات کے وقت وڈیروں اور جاگیرداروں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’اگر واقعی نظام بدلنا ہے تو سول سوسائٹی کو ایک مشترکہ رابطہ کونسل بنا کر اسٹیٹس کو مخالف امیدواروں کی کھل کر حمایت کرنا ہوگی۔‘‘
تاج رند کے مطابق نصراللہ گڈانی کی شہادت کے بعد ابھرنے والا جاگیردار مخالف نعرہ ایک مضبوط مزاحمتی تحریک بن سکتا تھا، لیکن کسان اور مزدور تنظیموں سمیت کسی سیاسی قوت نے اس کی قیادت نہیں کی۔

سماجی رہنما حسین سارنگ مہر نے سندھ کی تاریخی حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ 1843 میں انگریزوں کے قبضے سے قبل سندھ ایک آزاد ملک تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’سندھ کے اکابرین نے آزاد ریاست کی جدوجہد کے بجائے صوبائی حیثیت کو قبول کیا، جس کے نتائج آج تک سندھ بھگت رہا ہے۔ موجودہ بحران سے نکلنے کیلئے سول سوسائٹی کو فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہوگا۔‘‘

سینئر صحافی سلطان رند نے الزام عائد کیا کہ سندھ کے عوام کو اصل مسائل سے ہٹانے کیلئے ثقافتی نعروں کا سہارا لیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’چینی کمپنی نے انکشاف کیا ہے کہ سکھر بیراج کے بنیادی بلاکس میں گڑھے پڑ چکے ہیں، جس سے بیراج کو شدید خطرات لاحق ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اٹھارہ سالہ حکمرانی میں پیپلز پارٹی نے سندھ کو جس حال میں پہنچایا ہے، ویسا عرب، ارغون اور ترخان دور میں بھی نہیں ہوا، جبکہ کرپشن کے باعث سکھر بیراج کے 56 میں سے صرف 26 دروازے فعال رہے۔

اسٹیپ فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن شائستہ کھوسو نے کہا کہ جعلی پولیس مقابلوں، جبری گمشدگیوں اور خواتین پر مظالم جیسے سنگین انسانی حقوق کے مسائل پر سول سوسائٹی کی خاموشی سوالیہ نشان ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’وڈیرہ شاہی سے نجات کیلئے جاگیرداروں کو سردار اور وڈیرہ کہنا چھوڑنا ہوگا، ہم نے ادارے اور عوام اشرافیہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیے ہیں۔‘‘

سماجی کارکن اختیار تنیو نے کہا کہ 2010 کے سپر فلڈ سمیت قدرتی آفات میں سماجی تنظیموں نے نمایاں کردار ادا کیا، مگر اب حالات ایسے بنا دیے گئے ہیں کہ نئی تنظیم بنانا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’آئین تنظیم سازی کا حق دیتا ہے، لیکن حکمران سماجی تبدیلی کے خوف سے این جی اوز پر قدغنیں لگا رہے ہیں۔‘‘

سکھر میونسپل کارپوریشن کی رکن عذرا جمال نے کہا کہ سماجی تبدیلی کیلئے خواتین کی سیاست میں شمولیت اور بچیوں کی تعلیم ناگزیر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’تمام مسائل کا حل سیاست میں ہے، جب تک اہل اور باشعور لوگ سیاست میں نہیں آئیں گے، اقتدار چند اشرافیہ کے ہاتھ میں رہے گا۔‘‘

سماجی رہنما علی شیر مہر بے نے کہا کہ عوامی سیاست کو کمزور کرنے کیلئے پراجیکٹ بیسڈ این جی اوز متعارف کرائی گئیں۔
انہوں نے زور دیا کہ ’’ڈونرز کے دائرے سے نکل کر حقیقی سماجی تبدیلی کیلئے مشترکہ عملی جدوجہد کرنا ہوگی، کیونکہ تمام مسائل کا حل بالآخر سیاست ہی میں ہے۔‘‘

کانفرنس کے اختتام پر ایک درجن سے زائد قراردادیں متفقہ طور پر منظور کی گئیں، جن میں خواتین، بچوں اور کمزور طبقات کے تحفظ سے متعلق قوانین پر سختی سے عملدرآمد، کارپوریٹ فارمنگ کے تحت دی گئی زمینیں واپس لے کر بے زمین ہاریوں میں تقسیم کرنے، سندھ سے ڈاکو راج کے خاتمے، مقامی روزگار کیلئے صنعتوں کے قیام اور زرعی اصلاحات کا مطالبہ شامل تھا۔
قراردادوں میں پریا کماری، فضیلہ سرکی سمیت سندھ کے تمام مغویوں کی بازیابی، پیکا ایکٹ اور متنازع آئینی ترامیم کی واپسی، جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور جعلی پولیس مقابلوں کے خاتمے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔

سیمینار سے بی ڈی سی سی رہنما و سینیئر صحافی ساحل جوگی، سوئیٹ ہوم سکھر کے ڈائریکٹر شبیر میمن، نامور ادیب اختر درگاھی، ناری فائونڈیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر انور مہر، عبدالستار ہنگورجو، ستار زنگیجو، یاسین خاصخیلی، آغا طاھر مغل، امیر علی شیخ، شریف کھوسو، عبدالغفور نوناری نے بھی خطاب کیا. جبکہ سکھر نیشنل پریس کلب کے جنرل سیکرٹری پراگ شرما، سینیئر نائب صدر کے بی شیخ، درگاہ میاں آدم شاہ کلہوڑو کے گادی نشین میاں جھانگیر عباسی، سماجی رہنما امتیاز مہر، نجمہ میرانی، ملاح فورم سکھر کے جنرل سیکرٹری دلبر ملاح، آل پاکستان سومرا ایسوسی ایشن سکھر کے رہنما عبدالکریم سومرو، عبدالقادر سومرو، مزدور رہنما خادم شيخ، جوگی جاگو اتحاد کے رہنما دلبر جوگی، علی گل جوگی و دیگر نے شرکت کی.

سیمینار کا آغاز اور اختتام نامور گلوکار نواز شاہ نے شاہ لطیف کی وائی اور کافی گا کر کیا. آخر میں بھٹ شاہ رابطہ کونسل تنظیم کے 34 برس مکمل ہونے پر کیک بھی کاٹا گیا.

اپنا تبصرہ لکھیں