ایاز میلہ میں ایاز کے خلاف سنسرشپ

ڈاکٹر اشو تھامہ

ایاز میلو حیدرآباد میں جو ہوا، اسے اتفاق، بدنظمی یا ٹائم مینجمنٹ کی غلطی کہنا خود کو دھوکہ دینا ہے۔
شیخ ایاز کی مزاحمتی شاعری کے نام پر منعقد میلے میں وہ واحد سیشن جس میں ریاستی بیانیے، پیپلز پارٹی، سندھ کی تقسیم، نئے صوبوں، مسنگ پرسنز اور سندھ و بلوچستان کی سیاسی محرومی پر صاف اور بے خوف گفتگو ہو رہی تھی—
نہ صرف سوشل میڈیا سے غائب کر دیا گیا بلکہ اسے اسٹیج پر ہی زبردستی لپیٹ دیا گیا۔
یہ وہی سیشن تھا جس کا عنوان ہی ایاز کی نظم کی سطر سے لیا گیا تھا:
“سیاست کے ڈرامے کو کیسے سمجھیں”
ماڈریٹر وسعت اللہ خان نے سندھ کی تقسیم اور نئے صوبوں پر سوال کیا۔
منیزے جہانگیر اور دیگر پینلسٹس جواب دینے کو تیار تھے۔
آڈینس سننا چاہتی تھی۔
مگر اسی لمحے “میوزیکل پروگرام کے لیے عوام کے جمع ہونے” کا سطحی اور توہین آمیز بہانہ بنا کر سیشن ختم کر دیا گیا۔
یہ صرف ایک سیشن کا قتل نہیں تھا—
یہ مکالمے کا قتل تھا۔
جب ہر لٹریری گفتگو، ہر کتاب لانچ، ہر رسمی جملہ پروفیشنل سوشل میڈیا کیمپین کے ذریعے وائرل کیا جا سکتا ہے،
تو پھر صرف وہی گفتگو کیوں غائب کی جاتی ہے جو طاقت کے لیے غیر آرام دہ ہو؟
یہ ایاز میلو نہیں،
یہ ایاز کی ڈی پولیٹیکلائزیشن ہے۔
ایاز جس نے ریاست سے سوال کیا،
طاقت کے ڈرامے کو بے نقاب کیا،
اور سندھی شعور کو مزاحمت کی زبان دی—
اسی ایاز کے نام پر آج سوال دبایا جا رہا ہے۔
یہ خاموشی انتظامی نہیں،
یہ سیاسی ہے۔
اور جب ادب سیاست سے کاٹ دیا جائے،
تو وہ میلہ رہ جاتا ہے—
صرف میلہ،
ایاز نہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں