کٹھ پتلی دانشور اور کھوکھلا “عالمی” اردو کانفرنس

امرت منظور

جس ادبی کانفرنس کو آج بڑے طمطراق کے ساتھ “عالمی اردو کانفرنس” کہہ کر پیش کیا جا رہا ہے، وہ دراصل ایک محدود حلقے کی سالانہ نمائش ہے یہ بس کوئی پچاس ساٹھ لوگوں کا ٹولا ہے. جس میں ادب بطور فکر یا مزاحمت موجود ہی نہیں ہے بلکہ بطور اسٹیٹس سمبل استعمال ہو رہا ہے اسٹیج پر وہی چہرے، وہی نام، وہی تالیاں، اور پس منظر نظر آئے گا.

ایڈورڈ سعید نے دانشور کو “exile” یعنی جلاوطنی کی علامت کہا تھا یہ جلاوطنی صرف جغرافیائی نہیں، سماجی اور ادارہ جاتی بھی ہو سکتی۔ سچ بولنے والا دانشور اکثر تنہا کر دیا جاتا ہے، اسے پلیٹ فارم سے ہٹا دیا جاتا ہے، یا اخلاقی طور پر مشکوک بنا کر پیش کیا جاتا ہے اس کے باوجود دانشور کا کام مقبول ہونا نہیں، معتبر ہونا ہے.

لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے ہمارا ادب اور ادیب طاقتور کلاس کے لیے کٹھ پتلی بن چکا ہے جس کا کام صرف اور صرف سرکار کی جی حضوری کرنا ہے اب یہ میلے اور کانفرنسیں صرف اور صرف سرکاری اسٹیج بن کر باقی ہیں جیسے ماضی کے بادشاہ اپنے دربار میں شاعروں کو اس لیے جگہ دیتے تھے کہ وہ فتوحات کو عظیم، ناکامیوں پر خاموش، اور ظلم کو حکمت عملی بنا کر پیش کریں، ویسے ہی آج ریاستی سرپرستی میں ہونے والے میلوں میں ایسے ادیب بلائے جاتے ہیں جو سوال نہیں اٹھاتے ان کی تحریر میں مزاحمت نہیں، مصلحت ہو ان کا قلم معاشرے آئینہ نہیں، بلکہ برقعہ پہنا دے.

اس سے زیادہ افسوسناک منظر وہ ہے جہاں کئی مقامی دانشور، جن کی ادبی حیثیت خود سوالیہ نشان ہے، اپنی خوشامدانہ مہارت اور مضبوط تعلقات کے سہارے اس نام نہاد ادبی اسٹیج پر سینہ پھلائے کھڑے نظر آتے ہیں جنہیں کل تک ادبی حلقے سنجیدگی سے نہیں لیتے تھے، وہ اچانک “ممتاز شاعر”، “معروف ادیب” اور “اہم دانشور” کا پٹہ گلے میں ڈالے پھر رہے ہیں ادب میں جن کا کوئی حوالہ نہیں، وہ کانفرنس کے پوسٹر پر نمایاں ہیں، اور جن کے کام نے واقعی زبان، فکر اور سماج کو کچھ دیا، وہ کہیں پیچھے دھکیل دیے گئے.

اصل سوال یہ ہے کہ پاکستان جیسے معاشی بحران کے شکار ملک میں ایسی نمائشی ادبی عیاشیوں کا جواز کیا ہے؟ لاکھوں، کروڑوں روپے خرچ کر کے آخر قوم کو کیا ملا؟

چند تصویریں، چند خود ستائشی تقاریر، اور کچھ ایسے نام جنہیں عوام تو کیا، سنجیدہ قاری بھی سنجیدہ نہیں لیتا اگر یہی رقم پر کوئی ایسا ادارہ بنایا جاتا جہاں واقعی ادب اور آرٹسٹ کی اصل خدمت ہوتی، یہ سندھ کا بجٹ ہے جو سرکاری عیاشیوں پر خرچ ہورہا اور سندھ کا آرٹسٹ کسمپرسی کی زندگیاں گزارتے ہوئے مر جاتے ہیں آخر میں انکے پاس چند روپے علاج تک کے نہیں ہوتے، سرکار انہیں ایک سوا لاکھ کا چیک اس طرح عنایت کرتی ہے جیسے بھیک دی جارہی ہو اسکے باوجود بھی ہمارا سندھی ادیب، شاعر اس ناروا سلوک کے خلاف نہیں بولے گا، اسے صرف اور صرف آرٹ کونسل کی اسٹیج چاہیے پھر چاہے آپکی زبان کو اچھوت زبان سمجھ کر عالمی فہرست میں سے ہی کیوں نہ نکال دیا جائے لیکن آپ نہیں بولیں گے آپکی ترجیح سندھ اور زبان نہیں، اپنے ذاتی مفادات، اپنی تشہیر اور اپنی آسودگی کو مقدم رکھنا ہے.

اس ملک میں ادب کو بھی ایک سہولت، ایک سیڑھی اور ایک کاروبار بنا دیا گیا ایسا ادب جو سوال اٹھانے کے بجائے طاقت کے سامنے سر جھکا دے، جو عوامی دکھ کے بجائے ایلیٹ کی محفلوں کی زینت بنے، وہ ادب نہیں، صرف ایک مہذب دھوکہ ہے۔

افسوس اس سوچ پر ہے جو ادب کو قومی معیشت کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا ذریعہ بنائے، اور افسوس ان لوگوں پر جو ایسی فضول نمائشوں کی نہ صرف حمایت کرتے ہیں بلکہ اسے “قومی اعزاز” کا نام بھی دیتے ہیں۔ ادب اگر سماج سے کٹ جائے، اگر وہ عوام کے درد سے بے نیاز ہو جائے، تو وہ جتنی بھی “عالمی” کانفرنسوں کا نام دے کر پیش کیا جائے، اندر سے کھوکھلا ہی رہتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں