محبوب انصاری
اردو میڈیا اور مقامی سندھیوں کے تعلق کو سمجھنے کے لئے اگر سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو ایک تلخ حقیقت سامنے آتی ہے۔ مرکزی میڈیا سندھ کی ثقافت، شناخت اور سیاسی حقیقت کو وہ جگہ نہیں دیتا جو کسی بھی وفاقی اکائی کے شہریوں کا بنیادی حق ہے۔ اردو میڈیا کا مقامی سندھیوں کے ساتھ رویہ اسی طرح ہے جیسے جنوبی افریقہ میں رنگ بھید کے دور میں سفید فام میڈیا کا سیاہ فام لوگوں کے ساتھ تھا۔ یہ طرز عمل غلط فہمیوں کو جنم دیتا ہے اور صدیوں پرانی تہذیب کو منفی اور محدود نمائندگی تک سمیٹ دیتا ہے۔
ہر سال لاکھوں افراد سندھی کلچر ڈے کو پوری گرمجوشی سے مناتے ہیں۔ اسکولوں میں بچے، جامعات کے نوجوان، عوامی مقامات پر شہری، دیواروں پر فنکار اور گھروں میں خاندان۔ یہ دن رنگ، موسیقی، زبان اور محبت کا جشن ہے۔ مگر بعض حلقے اسے ردعمل یا مزاحمت کی تصویر بنا کر پیش کرتے ہیں۔ تہذیب کا جشن ہمیشہ شناخت کا اعلان ہوتا ہے، اسے مشکوک بنانا تاریخ کے وزن کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔
میڈیا میں اندرون سندھ کا لفظ اس طرح استعمال کیا جاتا ہے کہ جیسے سندھ دو الگ دنیائیں ہوں۔ حقیقت میں کراچی سے کشمور تک سندھ ایک ہی سماجی، تہذیبی اور جغرافیائی وجود ہے۔ کراچی سندھ کی دھڑکن ہے اور اس کی ترقی پورے صوبے کے ساتھ جڑی ہے۔ زبان بدلنے سے سوچ اور زاویہ بدل جاتا ہے۔ ایسی اصطلاحات ذہنی تقسیم پیدا کرتی ہیں جو زمینی حقیقت کا حصہ نہیں۔
سیاسی مباحثوں میں اکثر وہ آوازیں شامل نہیں ہوتیں جو سندھی عوام کی نمائندہ کہلائی جا سکتی ہیں۔ دانشور، ادیب، قوم پرست سیاستدان، مورخ اور تحقیقی آوازیں کم ہی نظر آتی ہیں۔ جب اہل رائے موجود نہ ہوں تو حقائق کی وضاحت بھی ممکن نہیں رہتی۔ اس کمی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ مسائل کو سطحی انداز میں دیکھا جاتا ہے اور گہرائی عوام تک نہیں پہنچ پاتی۔
پانی کی قلت، زراعت، زمینوں کی ملکیت، ماہی گیری، روزگار، تعلیم، موسمیاتی تبدیلی اور شہری حقوق جیسے موضوعات صرف خبر کے طور پر پیش نہیں کیے جا سکتے۔ ان پر گفتگو، تحقیق اور مسلسل کوریج کی ضرورت ہے تاکہ عوام مسئلے کی جڑ تک پہنچ سکیں۔ ایک جامع بیانیہ اسی وقت بنتا ہے جب میڈیا خبر کے ساتھ شعور کی ذمہ داری بھی ادا کرے۔
بصیر نوید کہتے ہیں کراچی میں سندھ اور سندھیوں کے خلاف نفرت پھیلانے والوں کے لئے اس سال کا سندھی کلچر ڈے بھاری ثابت ہوا۔ یہ دن ایک علامت بن گیا ہے کہ اب کراچی کی سیاست میں سندھی بھرپور کردار ادا کرے گا اور کسی کو یک طرفہ طور پر شہر کا ٹھیکیدار بن کر فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں ملے گی۔ اس تہوار نے واضح پیغام دیا کہ کراچی میں رہنے والا سندھی اپنی شناخت اور سیاسی حق کے لئے زیادہ منظم ہے اور مزید نظر انداز ہونے کو تیار نہیں۔
ڈراموں اور فلموں میں سندھی کرداروں کو اکثر مزاح، کم علمی یا پسماندگی کی علامت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ منفی قالب بندی صرف ایک کردار کی تضحیک نہیں بلکہ پوری قوم کے فہم کو محدود کرنے کا عمل ہے۔ ایسی پیشکش زبان اور لہجے سے آگے شناخت تک پہنچ جاتی ہے۔ فن کو تعصب نہیں بلکہ حقیقت کے قریب ہونا چاہیے۔
میڈیا معاشرے کا آئینہ ہے، لیکن اگر آئینہ زاویہ بدل کر رکھا جائے تو تصویر بھی بدل جاتی ہے۔ ضروری ہے کہ اردو میڈیا سندھ کو ضمنی موضوع نہیں بلکہ قومی بیانیے کا حصہ سمجھے۔ ثقافتی تنوع وفاق کی طاقت ہے۔ شناختوں کو دبانے سے اتفاق پیدا نہیں ہوتا بلکہ دوریاں بڑھتی ہیں۔ بات کرنا، سننا اور زاویہ بدل کر دیکھنا ہی آگے بڑھنے کا طریقہ ہے۔
اگر میڈیا سندھ کو پاکستان کی سیاسی، سماجی اور تہذیبی کہانی میں اس کے حقیقی مقام پر دکھائے تو اس کا فائدہ صرف سندھ کو نہیں پورے ملک کو ہو گا۔ قومیں احترام اور شمولیت سے مضبوط ہوتی ہیں، نظر انداز سے نہیں۔