کراچی کی مالکی: ثقافت نہیں، مارکیٹ اکانومی طے کرتی ہے

آصف جاوید، ٹورونٹو (کینیڈا)

تم پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کا گولڈ میڈل گلے میں لٹکا کر اورسندھی ٹوپی اور اجرک پہن کر کراچی کی سڑکوں پر دندناتے رہو، نعرے لگاتے رہو مگر تمہیں کراچی کی مالکی کبھی نہیں مل سکے گی. کیونکہ تم کراچی کی مارکیٹ اکانومی کا حصہ نہیں ہو.

اگر کراچی کی مالکی میں حصہ لینا ہے تو کراچی کی مارکیٹ اکانومی کا حصہ بننا پڑے گا۔ یہ سوشل اینڈ پولیٹیکل سائنس کا قانون ہے۔ مارکیٹ اکنامکس کا حصہ بنے بغیر آپ کسی سوسائٹی کا حصہ نہیں بن سکتے.

معیشت (اکنامکس) کی اپنی ایک سائنس ہے، ڈیمانڈ اور سپلائی کے بیچ کا یہ خلا ملک کے دیگر علاقوں سے آئے، مزدور، کاریگر، ہنرمند، تجارت پیشہ لوگ پورا کرتے رہیں گے۔ خلا پورا ہوتا رہے گا اور یہ قوم پرست سندھی حسرت سے دیکھتے رہیں گے.

سندھ کی سو فیصد سرکاری ملازمتوں پر قبضہ کرنے کے بعد بھی تم آج خالی ہاتھ ہو، کیونکہ تم مارکیٹ اکانومی کا حصہ نہیں ہو۔ تم صرف سرکاری ملازموں کی کرپشن اکانومی کا حصہ ہو۔ سندھ اور بالخصوص کراچی کی مارکیٹ اکانومی میں تمہارا زیرو فیصد حصہ ہے۔ مگر سندھ کے کرپشن اکانومی میں تم سو فیصد کے حصہ دار ہو. جس طرح کراچی میں سندھی، مہاجر، بلوچ، پنجابی ، پختون، سرائیکی، میمن، کچھی، رانگڑ، بنگالی اور دیگر اقوام اور کمیونٹیز کراچی کی مارکیٹ اکنامکس کا حصہ بن کر اپنی کاریگری، ہنرمندی، خدمات، کاروبار اور تجارتی اور صنعتی سرگرمیوں کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ آپ بھی بنئیے، مالکی خود بخود مل جائے گی۔

سندھی ٹوپی پہن کر، اجرک اوڑھ کر کراچی میں دندنانے سے کچھ نہیں ملے گا۔ صرف نفرت ملے گی۔ اگر میری بات کا یقین نہیں تو کراچی کے ان کامیاب پختون کاروباریوں کو صرف مثال کے طور پر دیکھ لیں. آج سے تیس، پینتیس سال قبل سبز چائے کی کیتلی اوربالٹی میں پانی اور گلاس لے کر کراچی کی کنسٹرکشن سائٹوں پر دو روپے میں مزدوروں کو سبز چائے کا گلاس بیچتے تھے۔ آج کراچی میں پلازہ تعمیر کرکے بیچتے ہیں۔

میں نے کندھے پر رکھ کر قالین بیچنے والے پٹھان کو گلستان جوہر میں پوری مارکیٹ کا مالک بنتے دیکھا ہے، جہاں اس کے گائوں سے آئے دیگر رشتہ دار اس ہی کی دکانوں پر اپنا مال بیچتے نظر آتے ہیں
ایسی ایک لاکھ سے زیادہ زندہ مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ محنت کرکے کراچی میں اربوں کا کاروبار و تجارت کرنے والے لاکھوں لوگ مثال کے طور پر پیش کئے جاسکتے ہیں۔

بنوں اور کوہاٹ سے آئے وہ لوگ جو پہلے فشریز سے مچھلیاں خرید کر سائیکل پر گلی محلوں میں بیچتے تھے آج کراچی کے ساحلوں سے دور ڈیپ سی ٹرالرز میں مچھلیاں پکڑ کر ایکسپورٹ کرکے ڈالرز کما رہے ہیں۔
یہ سب ہنرمندی، کاریگری۔ محنت، جستجو، لگن اور کاروباری و تجارتی سرگرمیوں سے ہی حاصل ہوسکا ہے۔ اور یہی واحد راستہ ہے۔ دوسرا راستہ چوری، ڈکیتی، رہزنی ، بدمعاشی ہے۔ جس کے لئے پوری کراچی کھلی پڑی ہے۔ انتخاب تمہارا اپنا ہے۔

اگر میری بات کا یقین نہیں آتا تو سندھ یونیورسٹی جا کر اکنامکس کے کسی سندھی پروفیسر سے یہ بات پوچھ لو، نہیں تو کراچی میں عبد الحفیظ بلوچ ایکٹیوسٹ اور سندھی کے ممتاز دانشور ابراہیم صالح محمد سے پوچھ لو۔ امریکہ میں مقیم ممتاز صحافی اور دانشور حسن مجتبیٰ سے پوچھ لو۔ پروفیسر عبدالحفیظ کنبھر سے پوچھ لو وہ دنیا جہان کی سیاحت کرتے ہیں۔ ان کا ایکپوژر ہم سب سے زیادہ ہے۔ ان سب لوگوں کی سندھ کی سندھ کی سوشل ڈائنمکس پر گہری نظر ہے۔

قصور تمہارا نہیں، منصوبہ سازوں نے سندھ بالخصوص کراچی کی ڈیموگرافی اور سوشل پولیٹیکل ڈیزائن انجینئرنگ اس طرح کی ہے کہ سندھ کی قوم پرست تنظیموں کو اپنے پے رول پر رکھ کر عام سندھی کو مہاجر
دشمنی کے ٹرک کی لال بتی کے پیچھے دوڑا دیا ہے۔

کوئی سندھی دانشور سامنے نہیں آتا کہ جو عام سندھیوں کو بتائے کہ تم غلط ٹرک کی لال بتی کے پیچھے دوڑ رہے ہو، تم اپنے ہنر، کاریگری، خدمات، تجارت کے زریعے کراچی کی مارکیٹ اکانومی کا حصہ بنو ،مالکی خودبخود بخود مل جائے گی۔ مارکیٹ اکانومی میں دیہی سندھ کا ڈومیسائل نہیں چلتا، نہ ہی نسل پرستی کے ذریعے مارکیٹ میں شیئر ملتا ہے۔

دوسری قوموں کو دیکھو! کوئی گلگت، بلتستان سے آرہا ہے، کوئی چترال سے کوئی آزاد کشمیر سے، کوئی قبائلی علاقہ جات سے کوئی صوبہ سرحد سے کوئی سرائیکی پنجاب سے۔ سب ڈیمانڈ اور سپلائی کے بیچ کا خلا پورا کرکے اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔ تم مہاجر دشمنی کے ٹرک کی لال بتی کے پیچھے دوڑ رہے ہو۔ ٹرک ہے کہ رکنے میں ہی نہیں آرہا۔ نہ کبھی رکے گا ۔ یہ سوشل ڈائنامکس کا گیم ہے۔ جو گیم کو سمجھ لے گا وہی جیتے گا۔

میں سندھ کا بیٹا اور فرزند زمین ہوں۔ اصلی نسلی سندھی ہوں۔ مہاجر میری لسانی شناخت ہے۔ میں پانچ نسلوں سے سندھ میں آباد ہوں، یہیں کماتا ہوں، یہیں لگاتا ہوں، یہیں مروں گا اور یہیں دفن ہوں گا۔ مجھے تم سے کسی سند کی ضرورت نہیں۔ مجھے سندھ دھرتی سے پیار ہے۔ سندھ میری ماں ہے۔ میرے پاس سندھ کا ڈومیسائل اور پاکستان کا پاسپورٹ ہے اور مجھے اپنے وطن پاکستان پر فخر ہے.

(نوٹ: لکھاری کی موقف اور خیالات سے ادارے کا موقف ہونا ضروری نہیں)

اپنا تبصرہ لکھیں