سکھر سائٹ اسٹیٹ میں بدانتظامی اور کرپشن، ثبوت موصول ہونے کے باوجود تحقیقات نہ ہو سکی

سکھر(رپورٹ: تاج رند) سکھر میں اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سندھ انڈسٹریل ٹریڈنگ اسٹیٹ لمیٹڈ (سائٹ) سکھر میں بدانتظامی، کرپشن اور غیرقانونی سرگرمیوں سے متعلق سنگین شکایات پر مبینہ طور پر مؤثر کارروائی نہ کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ شکایت کنندگان سے دستاویزی ثبوت اور حلفیہ بیانات لینے کے باوجود تحقیقات کو آگے نہیں بڑھایا گیا، جس کے باعث صنعتی علاقے میں نئی فیکٹریوں کے قیام کا عمل رک گیا اور بے روزگاری میں اضافہ ہونے لگا ہے۔

رپورٹ کے مطابق شکارپور روڈ کے قریب 1060 ایکڑ پر قائم سکھر سائٹ اسٹیٹ لمیٹڈ بدانتظامی، کرپشن اور غیرقانونی سرگرمیوں کا مرکز بن چکی ہے۔ الزام ہے کہ 18 گریڈ کے اسٹیٹ انجینئر کی اسامی پر طویل عرصے سے نچلے گریڈ کا ملازم عبدالکریم عرف گلشن ملانو قابض ہے۔ اس نامزد انچارج انجینئر کے خلاف اینٹی کرپشن سکھر کو دستاویزی ثبوت اور حلفیہ بیانات فراہم کیے گئے، تاہم اس کے باوجود اوپن انکوائری شروع نہیں کی گئی۔

بارہ سال سے خلاف ضابطہ مقرر سائٹ انجنيئر عبدالکریم عرف گلشن ملانو

ذرائع کے مطابق اینٹی کرپشن کے تفتیشی افسر ریاض چنو نے لیٹر نمبر 1169/2025 DD/ACE/Insp کے تحت سب انجینئر عدنان احمد شیخ کا حلفیہ بیان ریکارڈ کرنے کے بعد ان سے شواہد حاصل کیے۔ شکایت میں بتایا گیا ہے کہ انچارج سائٹ انجینئر نے اپنی تقرری کے اصل آرڈر اور آؤٹ ورڈ رجسٹر میں ٹیمپرنگ کی، آثارِ قدیمہ کے پلاٹ D-8 (ساڑھے چار ایکڑ) کو چائنا کٹنگ کے ذریعے سب ڈویژن D-8C اور D-8D میں تقسیم کر کے فروخت کیا، جبکہ آثارِ قدیمہ کے پلاٹس D-7 اور D-3 سے متعلق جعلی کاغذات بنا کر وہ پلاٹس بھی فروخت کر دیے گئے، حالانکہ یہ پلاٹس ریکارڈڈ تھے۔

الزام ہے کہ انچارج انجینئر نے ڈی مارکیشن اور ری اسٹوریشن کے اختیارات غیرقانونی طور پر استعمال کیے اور صنعتی علاقے کے 157 اوپن پلاٹس پر نان یوٹیلائزیشن فیس (NUF) کی جعلی ڈرائنگز بھاری رشوت کے عوض منظور کیں۔ قواعد کے مطابق اوپن پلاٹس پر ڈرائنگ منظور کیے بغیر تعمیر جرم ہے، تاہم اس کے باوجود کروڑوں روپے کی مبینہ کرپشن کے شواہد پیش کیے گئے۔

مزید یہ کہ B-7، B-17، نیو قریشی انڈسٹری، نیو مہران انٹرپرائزز، اکمل بوٹلنگ، میسرز عبدالمنان سمیت دیگر پلاٹس کی سب لیٹنگ فیس میں بھی بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کے ثبوت اینٹی کرپشن حکام کو دیے گئے۔ شکایت میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صنعتی پلاٹس کو مبینہ طور پر فی پلاٹ 20 لاکھ روپے رشوت کے عوض کمرشل گوداموں میں تبدیل کیا گیا، جس کے نتیجے میں D-62، B-26، D-63، B-37 سمیت متعدد پلاٹس پر 25 سے 30 غیرقانونی گودام قائم ہو چکے ہیں۔

ذرائع کے مطابق ان گوداموں کو کرائے پر دے کر حکومت کی مقررہ سب لیٹنگ فیس (6 روپے فی اسکوائر فٹ) بھی سرکاری خزانے میں جمع نہیں کرائی گئی۔ قواعد کے برعکس، بغیر بورڈ منظوری کے پلاٹس کرائے پر دیے گئے اور مختلف مقامات پر غیرقانونی کانٹے نصب کیے گئے۔ مزید الزام ہے کہ گزشتہ 14 برسوں سے سڑکوں، اسٹریٹ لائٹس، پارکس اور بیوٹیفکیشن کے لیے ای ڈی پی اسکیموں کے تحت آنے والی کروڑوں روپے کی رقم خردبرد کی گئی۔

شکایت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کیرتھر کینال پر قائم واٹر پمپنگ اسٹیشن کی مشینری اور مینٹیننس کے نام پر نامزد انجینئر نے اپنے بھتیجے عبدالوحید ملانو کو سرکاری کنٹریکٹر ظاہر کر کے ہر تین ماہ بعد لاکھوں روپے جاری کرائے۔ اس کے علاوہ سکھر سائٹ چوک میں صنعتی اراضی پر مرحوم والد کے نام پر چار دکانوں سمیت چھ دکانیں تعمیر کر کے کمرشل بنیادوں پر کرائے پر دی گئیں، جن کی سب لیٹنگ فیس سرکاری خزانے میں جمع نہیں کرائی جا رہی۔

سال 2008 کے ریکارڈ کے مطابق سکھر سائٹ اسٹیٹ میں 197 پلاٹس الاٹ تھے، جن میں سے 61 پر فیکٹریاں فعال تھیں، 38 بند ہو چکی تھیں، جبکہ 128 اوپن پلاٹس اور 14 پر تعمیرات جاری تھیں۔ اسی ریکارڈ کے مطابق مستقبل میں سڑکوں کی توسیع، پانی، بجلی اور گیس کی فراہمی میں اضافے اور مزید 412 پلاٹس الاٹ کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی، تاہم یہ منصوبے عملی جامہ نہ پہن سکے۔ الٹا، الزام ہے کہ فعال فیکٹریوں کو بند کروا کر انہیں گوداموں میں تبدیل کر دیا گیا۔

شہری و صنعتی حلقوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ فوری طور پر شفاف اوپن انکوائری کر کے ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی کرے تاکہ سکھر سائٹ اسٹیٹ میں صنعتی سرگرمیاں بحال ہو سکیں اور بے روزگاری میں کمی آئے۔

اپنا تبصرہ لکھیں