حیدرآباد ہسپتال میں دو دن سے داخل عرفان لغاری نے آج صبح ہسپتال میں دم توڑ دیا
20 مئی کو مورو میں کالعدم قوم پرست جماعت جئے سندھ متحدہ محاذ (جسمم) کے کارکنوں نے کارپوریٹ فارمنگ اور سندھ ندی پر نئے نہروں کے منصوبوں کے خلاف ریلی نکالی تھی۔ ریلی کو روکنے کے دوران پولیس اور کارکنوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔
جھڑپوں کے دوران پولیس کی مبینہ فائرنگ میں ایک کارکن زاہد لغاری موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا تھا، جبکہ عرفان لغاری سمیت ایک درجن سے زائد کارکن شدید زخمی ہو گئے تھے۔

ورثہ کے مطابق زخمیوں میں عرفان لغاری اور دلبر لغاری کی حالت تشویشناک ہونے کی وجہ سے انہیں نواب شاہ کے بعد حیدرآباد منتقل کیا گیا تھا۔ گولیوں سے چھلنی عرفان لغاری کی حالت مسلسل بگڑتی گئی اور آج جمعے کی صبح انہوں نے ہسپتال میں دم توڑ دیا۔
عرفان لغاری کے جاں بحق ہونے کے بعد مورو واقعے میں ہلاک ہونے والے کارکنان کی تعداد دو ہو گئی ہے۔
قوم پرست وکیل اور سندھ یونائیٹڈ لائرز فورم کے رہنما عاقب راجپر کے مطابق مورو سانحے کے 15 زخمیوں میں سے ایک زخمی دلبر لغاری کی جان بچانے کے لیے ڈاکٹروں نے اس کی ایک ٹانگ بھی کاٹ دی۔
ایڈووکیٹ عاقب راجپر کا کہنا ہے کہ مورو پولیس نے 35 قوم پرست کارکنوں کو اٹھا کر غائب کر دیا ہے۔ انہوں نے اپنے سوشل اکاؤنٹ پر سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے اپیل کی ہے کہ مورو میں ہونے والے ریاستی ظلم کا نوٹس لیا جائے۔
ذرائع کے مطابق پولیس کی جانب سے جبری طور پر لاپتہ کر دیئے گئے درجنوں کارکنان میں مقتول عرفان لغاری کے بھائی فرمان لغاری بھی شامل ہیں
منگل کے روز ضلعہ نوشہرو فیروز کے مورو شہر میں کارپوریٹ فارمنگ اور سندھو ندی پر نئے نہروں کے منصوبوں کے خلاف قوم پرست کارکنوں کی ریلی پر پولیس کی تشدد آمیز کارروائی کے بعد صورتحال کشیدہ ہو گئی تھی۔ اس دوران نامعلوم افراد نے قومی شاہراہ پر متعدد آئل ٹینکرز ودیگر گاڑیوں کے ساتھ ساتھ مورو کے کچہری روڈ پر واقع سندھ کے گھریلو وزیر ضیاء الحسن لنجھار کے گھر کو آگ لگا دی۔ جس کے ردعمل میں گھریلو وزیر کے مبینہ ذاتی افراد نے مظاہرین پر فائرنگ کی۔

قوم پرست کارکنان اور ورثاء نے پولیس کی مبینہ فائرنگ میں ہلاک ہونے والے زاہد لغاری کے قتل کا مقدمہ وزیر داخلہ سندھ ضیاء الحسن لنجار کے خلاف درج کرانے کے لیے مورو بائی پاس پر 24 گھنٹے تک لاش رکھ کر دھرنا دیا، لیکن پولیس نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا۔ جس کے بعد نہروں کے منصوبوں اور کارپوریٹ فارمنگ کے خلاف جدوجہد کرنے والی آل سندھ لائرز ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں عامر نواز وڑائچ، کے بی لغاری و دیگر نے دھرنے میں پہنچ کر زاہد لغاری کے قتل کا مقدمہ عدالت کے ذریعے درج کرانے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد دھرنا ختم کر کے جمعرات کو زاہد لغاری کو سپرد خاک کیا۔

جبکہ مورو پولیس نے دہشت گردی ایکٹ کے تحت اب تک درج کی گئی چار مختلف ایف آئی آرز میں تقریباً 300 افراد کو نامزد کیا ہے۔ جن میں سے دو ایف آئي آر میں سابق وفاقی وزیر اور نیشنل پیپلز پارٹی کے سربراہ غلام مرتضی جتوئی اور ان کے بھائی مسرور جتوئی کو ملزمان کو بھڑکانے کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔